﷽
عربی زبان اور عالم اسلام
(بھائی زبیر حمید کی تحریر)
خلافت اسلامیہ کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ممالک اسلامیہ خریطئہ عالم پر چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ گئے ،مختلف اوطان میں مختلف نسلوں میں بٹے اہل اسلام جن کیلئے خلافت کا سایہ باپ کے سائے کی طرح تھا بھانت بھانت کی بولیوں اور زبانوں کو اظہار ما فی الضمیر کے لئے استعمال کرتے تھے ،لیکن مرکز اسلام حرمین شریفین کے اردگرد کے ممالک جو کہ شمال میں شام ، جنوب میں یمن، مشرق میں بحرین اور مغرب میں بر اعظم افریقہ کے آخری کونے مراکش تک وسیع وعریض علاقے پر پھیلے ہوئے تھے،ان ممالک میں بسنے والے مسلمان خلافت کے سائے سے محرومی کے باوجودخوبصورت پیرائےمیں لسان جنت وقرآن کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے ،دیگر ممالک کے مسلمان کیسے بھی انتشار وافتراق میں مبتلا ہوں ،مگر ان ممالک کے مسلمان آپس میں عربی زبان سے گہرے تعلق کی وجہ سے جسد واحد کی طرح تھے ،اور اس تعلق کی بنیاد پر منابع دین سے حقیقی طور پر سیراب ہوتے تھے ،دین معاشرتی فضا پر غالب ،عوام وخواص (واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا )(آل عمران )کے خدائی حکم پر عمل پیرا تھے ،تمام اہل اسلام عربی زبان کی وحدت پر متفق ہونے کے ساتھ معاشرے میں ہر خاص وعام نثر ونظم منبر ومحراب کتابت ورسائل کیلئے اسے اظہار ما فی الضمیر کیلئے بلا شرکت غیرےاستعمال کرنے پر فخر اور اسکی حفاظت کا داعی تھا،نتیجتاً قواعد وضوابط کے خلاف ہر طرح کی لسانی اور قلمی خطاوؤں پر مؤاخذہ اور تحریفات سے حفاظت کا اہتمام تھا۔
یہی نہیں بلکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں بھی اس بات کا اہتمام تھا، مستدرک حاکم میں امام حاکم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں ،عن ابی الدرداء رضی اللہ عنہ ان رجلاً لحن بحضرتہ فقال : ( ارشدو ا اخاکم فقد ظل ). ترجمہ : ایک شخص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں لحن میں مبتلا ہوا تو حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا : کہ اپنے بھائی کی رہنمائی کرو اسے زبانی گمراہی لاحق ہوئی ہے ،اسی طرح اور بھی روایات عربی کی فصاحت وبلاغت کی حفاظت اور تحریفات سے بچانے کے متعلق ملتی ہیں ،( فقد روی ان عبد الملک کان یحذر ابناءہ من اللحن لانہ کان یری ان اللحن فی منطق الشریف اقبح من آثار الجدری فی الوجہ واقبح من الشق فی ثوب نفیس ).ترجمہ : عبدالملک بن مروان اموی خلیفہ اپنی اولاد کو لسانی غلطی سے روکتے تھے ،کیونکہ انکی رائے میں اس مبارک زبان میں غلطی چہرےپر برص کے آثار اور خوبصورت عمدہ کپڑے میں پھٹن سے زیادہ بدتر ہے ۔
علمائے زمانہ میں مذکورہ بالا حدیث شریف پر عمل اور احیائے سنت کا اہتما م کرتے ہوئے عربی زبان کو تحریفات سے بچانے کا اہتمام تھا، اور اسی سلسلے میں عوام وخواص کو انکی زبانی اور کلامی اخطاء پر تنبیہ کیلئے سینکڑوں کتابیں تالیف فرمائی ،امام کسائی متوفی 189ھ نے (ماتلحن فیہ العوام)،ابو نصر احمد بن حاتم الباھلی نے (ماتلحن فیہ العامۃ )،اما م فراء متوفی 208ھ نے (البھاء فیماتلحن فیہ العامۃ)،ابو عبید متوفی 209ھ نے(لحن العامۃ)،اور اسی نام سےابو عثمان بکربن محمد المازنی متوفی 238ھ اور ابو حاتم سجستانی متوفی 255ھ نے بھی تصنیف فرمائی،امام ابو القاسم الحریری نے (درۃ الخواص فی اوھام الخواص)تصنیف فرمائی، اسی وجہ سے ان تمام ممالک اسلامیہ میں کوئی ایک بھی اس بات کا قائل نہ تھا، کہ عربی زبان کی دو قسم ہیں ایک منبر ومحراب کتابت ورسائل اور دوسری عوام الناس کے درمیان سطحی استعمال کیلئے، ان تمام جہود اور تالیفات وتصنیفات کا مقصد انیسویں صدی کے مستشرقین کی طرح عوامی تحریف شدہ عربی کی تدوین نہ تھا، بلکہ عوام وخواص کی غلطیوں پر تنبیہ کے ذریعے فصیح عربی کو تحریفات سے محفوظ رکھنا تھا، کیونکہ علمائے زمانہ عوامی عربی کو حقیقی فصیح عربی میں سراسر تحریف شمار کرتے تھے ۔
ان تمام کوششوں کے صلے میں فصیح عربی اپنی تمام ترفصاحت وبلاغت کےساتھ تخت قیادت پر براجمان تھی ،اور خاص وعام کسی کےبھی وہم وگمان میں نہ تھا،کہ عوامی عربی جو کہ تحریفات اور لحون کا مجموعہ ہے اپنی تمام تر کجی اور کمزوریوں کے باوجود فصیح عربی کی مزاحمت کریگی ۔
اور پھر چنگیز ی یلغار نے 656ھ میں عالم اسلام کا رخ کیا اور تمام متمدن دنیا کو ملیامیٹ کرتے ہوئے خلافت بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی،خلافت کے زوال کے ساتھ عربی زبان کا زمین سے ثریا کا سفر مکمل ہونے کے بعد ثریا سے زمین کا سفر شروع ہوا ،چنگیزی حملے کہ وجہ سے علمائے زمانہ منتشر ہوگئے ،اورعربی زبان کے ساتھ سابقہ اہتمام باقی نہ رہ سکا، جسکی وجہ سے عامۃ الناس کی غلطیوں اور تحریفات سے صرف نظر کیا گیا ،جو آگے چل کر ترقی کرتے ہوئے موجودہ تحریف شدہ عربی کی صورت میں ظاہر ہوئی ، اسی دوران انیسویں صدی شروع ہوئی برطانوی اور فرانسیسی استعمار کا زمانہ آیا ،شام لیبیا الجزائر پر فرانس،اور مصر پربرطانیہ کا قبضہ ہوگیا ،مشہور ہے کہ حکمران طبقے کا معاشرے پر گہرا اثر ہوتا ہے ،اور غالب قوموں کی ثقافت غلام قوموں میں سرایت کرجاتی ہے ۔
یہی کچھ عربی زبان کی لڑی میں پروے ہوئے موتیوں کی طرح ان اسلامی ممالک کے ساتھ ہوا، بلکہ استعمار نے اسے اسلحے کے طور پر استعمال کیا ،اور سب سے پہلے عربی کی تقسیم و تفریق کا تصور برطانوی استعمار کے زمانے میں مصر میں تعینات جرمن مستشرق ڈاکٹر ولھلم سبیتا نے پیش کیا ،اور عوامی تحریف شدہ عربی کو سرکاری محکموں کتابت وخطابت اور تعلیمی وغیر تعلیمی ہرسظح پر اپنانے کی تجویز پیش کی، اسی شخص نے 1880ء میں ایک کتاب "قواعد العربیۃ العامۃ فی مصر "تصنیف کی، جس میں انھوں نے عربی رسم الخط کو رومن رسم الخط سے تبدیل کرنے کی رائے کا اظہار کیا ،یہی کتاب ہے جس کے بعد عالم عرب میں فصیح عربی کے مشکل ہونے کا تصور پیداہوا، مذکورہ مستشرق اپنی کتاب جو انھوں نے عوامی عربی کی تدوین کے لئے تصنیف کی میں،لکھتے ہیں "میں نےکتاب کی تصنیف اور عوامی عربی کو جمع کرنے کےلئے انتہائی مشقتیں برداشت کی ،میں عرب ممالک میں ایک طویل عرصہ رہائش پذیر رہا، اور اس کتاب میں صرف اسی لفظ کو لکھا جو میں اپنے کانوں سے سنتا ،اور جو لفظ میں سنتا اسےاپنی آستین میں لکھ لیتا، مبادا کہ متکلم دیکھ لے اوراپنے کلام کی آزادی کو کھودے "
عالم کفر نے فصیح عربی کو ختم کرنے اور عوامی تحریف شدہ عربی کو عام معاشرے سے لیکر کتابت وخطابت اور تعلیمی اداروں میں رواج دینے کیلئے تمام تر کوششیں صرف کیں، یہاں تک کہ یورپی ممالک میں تحریف شدہ عربی کی تحقیق کیلئے مستقل ادارے قائم کئے گئےجن میں عوامی عربی تمام لہجات اور باریکیوں کےساتھ مستشرقین اورماہر ترین عرب اساتذہ کی نگرانی میں پڑھائی جاتی ۔
1-اٹلی میں مدرسہ تابولی للدروس الشرقیۃ قائم ہوا ،اور 1888ء میں اسکی تجدید ہوئی، جس میں تحریف شدہ عربی کو پڑھایا جاتا ہے ۔
2- 1754ء میں آسڑیا کے شہر وینا ((Vienna میں (مدرسۃ القناصل ) قائم ہوا، جس میں قونصلیٹس کو عوامی عربی کے تما م لہجات کے ساتھ مصر کے مایہ ناز عربی دان استاذ حسن المصری کی نگرانی میں پڑھایا جاتا ۔
3-1759ءمیں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں مشرقی زبانوں کی تعلیم کےلئے ایک یونیورسٹی قائم کی گئی، جس میں مشہور مستشرق سلفسردی ساسی پروفیسر تھے، اس یونیورسٹی میں عربی زبان کے متعلق ایک مستقل شعبہ کام کرتا ہے ۔
4-روس کے دارلحکومت ماسکو میں1814ء لازیرف یونیورسٹی قائم ہوئی، اور 1959ء میں ایک مستقل شعبہ عربی کے لئے اس یونیورسٹی میں قائم کیا گیا ۔
5-جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایک خصوصی یونیورسٹی مشرقی زبانوں کو سکھانے کے لئے بنائی گئی، جس میں عربی کو تمام لہجات کے ساتھ سکھایا جاتا تھا ،اور ڈاکٹر احمد الوالی مصری لہجہ کے اور شامی لہجہ کے ڈاکٹر ہرتمن استاد تھے۔
6-ہنگری میں 1891ء میں الکلیۃ الملکیۃ لعلوم الاقتصادالشرقیۃ قائم کیا گیا جس میں عربی کو خصوصی طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔
7ـبرطانیہ کے دارالحکومت لندن میں 19صدی کی ابتداء میں قائم کی جانے والی یونیورسٹی میں ایک مستقل شعبہ عربی کے لئے تھا۔
ان اداروں کے تیار شدہ دماغوں کو اسلامی ممالک میں بھیج کراستعمار اپنے مہروں کو اہم عہدوں پر بٹھاتا، جو تصنیف وتالیف کی صورت میں فصیح عربی کے خلاف محاذ جنگ بناتے، ڈاکٹر ولھلم سبیتا اور ڈاکٹر کارل فورس دونوں جرمن مستشرق دارالکتب المصریۃ کے منتظم اور آخر الذکر دارالمعارف کا رائٹر بھی تھا،ڈاکٹر j.seldon wilmore اورڈاکٹر باول یہ دونوں مستشرق مصر میں عوامی عدالت کے جج تھے ،اور Willaim willcoks برطانوی مستشرق جو کہ قاہرہ میں بطور انجینئر کام کرتا تھا ۔
اس وقت موجودہ عرب میڈیا میں عوامی تحریف شدہ عربی کی تائید کا محرک یوہان فک نامی جرمن مستشرق کی کتاب "دراسات فی اللغۃ والاسالیب العربیۃ "ہے ،جو اس نے 1950ء میں تصنیف کی ،اسی کتاب کی بنیاد پرعوامی عربی عرب ممالک کےمیڈیا، سیمینارز، کانفرنسز اور ٹاکشوزکا موضوع بنی، اور اسکے نفاذ کی ایک منظم انداز میں کوششیں شروع ہوئی، اس کتاب میں عرب معاشرےکویہ سوچ فراہم کی گئی ،کہ اب زمانے کی ترقی اور دوسری اقوام کے ساتھ ٹیکنالوجی کی دوڑمیں شامل ہونےکےلئے لازم ہے ،کہ معاشرے میں عوامی عربی کو تعلیمی اور غیرتعلیمی ہر سطح پر نافذکیا جائے ،کیونکہ عرب نوجوان بچپن سے جوانی تک عوامی عربی میں بول چال کرتا ہے پھر جب وہ اعلی تعلیمی میدان میں قدم رکھتا ہے ،تو اسے ایک نئی اجنبی زبان کاسامنا کرنا پڑتا ہے ،جسکے سیکھنے کیلئے اسے اپنی زندگی کے قیمتی سال ضائع کرنے ہوتے ہیں ،جو کہ اصل مقصود سے ہٹ کر ضیاع وقت ہونےکے ساتھ، تعلیمی زبان اس نوجوان کے لئے عام فھم نہیں رہتی، جس کی وجہ سےعالم عرب علوم وفنون کی مہارت میں دیگر اقوام سے پیچھے ہے ۔
کیاہی خوبصورت اور مٹھاس سے تر زہر آلود تیر اہل اسلام کے سینے میں اتارنے کی کوشش ہے ،اگر اس محرف شدہ عربی کو تمام عالم عرب پر نافذکردیا جائے، تو اہل اسلام کا رشتہ قرآن و حدیث اور دین اسلام کے حقیقی چشموں سے منقطع ہوکررسمی سا رہ جائے گا،گویا عربی زبان کے خلاف سازش کے ذریعے کفر اہل اسلام سے اسلام کی اصل روح کو سلب کرنا چاہتا ہے۔
عالم کفر کا یہ شیریں انداز صلیبی جنگوں میں مسلسل شکست کی خاک چاٹنے کے بعد کا نتیجہ ہے،فراعنہ کفر نےمیدان جنگ میں سینے پروار کرنے کے بجائے (الغزو الفکری ) ذہنی جنگ کی صورت میں پیٹھ پر وار کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اور اس جنگ میں اہل اسلام کے بھی کچھ بیمار،مستشرقین کی سوچ سے متاثر ہ ذہن ،جنکی اپنی ذہنی ساخت وپرداخت دارالکفر کی جامعات میں ہوئی نےبھی پورا ساتھ دیا ، جن میں بڑے نام استاد محمد عیاد الطنطاو ی کاہے ،جنھوں نے تحریف شدہ عربی کی تایید میں "احسن النخب فی معرفۃ لسان العرب "تصنیف کی ،اور اسی طرح شامی مصنف استاد میخائیل الصباغ جنھوں نے1812ءمیں عوامی عربی کی تایید میں "الرسالۃ التامۃ فی کلام العامۃ والمناہج فی اصول الکلام الدارج "تصنیف کی، اور طہ حسین کے نام سےتو ہر شخص جسکا عربی زبان سے رسمی سا تعلق ہو وہ بھی واقف ہے ۔
اس وقت اگر ان تمام کوششوں کے نتائج پر نظر ڈالی جائے، تو معلوم ہوگا کہ تقریبا٪50 فیصد کوششیں کامیاب نظر آتی ہیں ،منبر ومحراب کو چھوڑ کر تعلیمی ، سرکاری ونجی اداروں حتی کہ میڈیا تک میں عوامی تحریف شدہ عربی کا نفاذ ہوتا جا رہا ہے، اور اس مسموم تیر کا زہر عالم اسلام کے بدن میں لمحہ بہ لمحہ سرایت کرتے ہوئے اپنا اثر دکھا رہا ہے ،مگر صد افسوس ہے کہ نوجوانان امت اسلامیہ غفلت کی چادر اوڑ ھ کر اطمینان سےخواب غفلت میں محو ہیں۔فالی اللہ المشتکی۔