عربی زبان اور عالم اسلام

عربی زبان اور عالم اسلام

(بھائی زبیر حمید کی تحریر)

خلافت اسلامیہ کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ممالک اسلامیہ خریطئہ عالم پر چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ گئے ،مختلف اوطان میں مختلف نسلوں میں بٹے اہل اسلام جن کیلئے خلافت کا سایہ باپ کے سائے کی طرح تھا بھانت بھانت کی بولیوں اور زبانوں کو اظہار ما فی الضمیر کے لئے استعمال کرتے تھے ،لیکن مرکز اسلام حرمین شریفین کے اردگرد کے ممالک جو کہ شمال میں شام ، جنوب میں یمن، مشرق میں بحرین اور مغرب میں بر اعظم افریقہ کے آخری کونے مراکش تک وسیع وعریض علاقے پر پھیلے ہوئے تھے،ان ممالک میں بسنے والے مسلمان خلافت کے سائے سے محرومی کے باوجودخوبصورت پیرائےمیں لسان جنت وقرآن کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے ،دیگر ممالک کے مسلمان کیسے بھی انتشار وافتراق میں مبتلا ہوں ،مگر ان ممالک کے مسلمان آپس میں عربی زبان سے گہرے تعلق کی وجہ سے جسد واحد کی طرح تھے ،اور اس تعلق کی بنیاد پر منابع دین سے حقیقی طور پر سیراب ہوتے تھے ،دین معاشرتی فضا پر غالب ،عوام وخواص (واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا )(آل عمران )کے خدائی حکم پر عمل پیرا تھے ،تمام اہل اسلام عربی زبان کی وحدت پر متفق ہونے کے ساتھ معاشرے میں ہر خاص وعام نثر ونظم منبر ومحراب کتابت ورسائل کیلئے اسے اظہار ما فی الضمیر کیلئے بلا شرکت غیرےاستعمال کرنے پر فخر اور اسکی حفاظت کا داعی تھا،نتیجتاً قواعد وضوابط کے خلاف ہر طرح کی لسانی اور قلمی خطاوؤں پر مؤاخذہ اور تحریفات سے حفاظت کا اہتمام تھا۔

            یہی نہیں بلکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں بھی اس بات کا اہتمام تھا، مستدرک حاکم میں امام حاکم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں ،عن ابی الدرداء رضی اللہ عنہ ان رجلاً لحن بحضرتہ فقال : ( ارشدو ا اخاکم فقد ظل ). ترجمہ : ایک شخص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں لحن میں مبتلا ہوا تو حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا : کہ اپنے بھائی کی رہنمائی کرو اسے زبانی گمراہی لاحق ہوئی ہے ،اسی طرح اور بھی روایات عربی کی فصاحت وبلاغت کی حفاظت اور تحریفات سے بچانے کے متعلق ملتی ہیں ،( فقد روی ان عبد الملک کان یحذر ابناءہ من اللحن لانہ کان یری ان اللحن فی منطق الشریف اقبح من آثار الجدری فی الوجہ واقبح من الشق فی ثوب نفیس ).ترجمہ : عبدالملک بن مروان اموی خلیفہ اپنی اولاد کو لسانی غلطی سے روکتے تھے ،کیونکہ انکی رائے میں اس مبارک زبان میں غلطی چہرےپر برص کے آثار اور خوبصورت عمدہ کپڑے میں پھٹن سے زیادہ بدتر ہے ۔

علمائے زمانہ میں مذکورہ بالا حدیث شریف پر عمل اور احیائے سنت کا اہتما م کرتے ہوئے عربی زبان کو تحریفات سے بچانے کا اہتمام تھا، اور اسی سلسلے میں عوام وخواص کو انکی زبانی اور کلامی اخطاء پر تنبیہ کیلئے سینکڑوں کتابیں تالیف فرمائی ،امام کسائی متوفی 189ھ نے (ماتلحن فیہ العوام)،ابو نصر احمد بن حاتم الباھلی نے (ماتلحن فیہ العامۃ )،اما م فراء متوفی 208ھ نے (البھاء فیماتلحن فیہ العامۃ)،ابو عبید متوفی 209ھ نے(لحن العامۃ)،اور اسی نام سےابو عثمان بکربن محمد المازنی متوفی 238ھ اور ابو حاتم سجستانی متوفی 255ھ نے بھی تصنیف فرمائی،امام ابو القاسم الحریری نے (درۃ الخواص فی اوھام الخواص)تصنیف فرمائی، اسی وجہ سے ان تمام ممالک اسلامیہ میں کوئی ایک بھی اس بات کا قائل نہ تھا، کہ عربی زبان کی دو قسم ہیں ایک منبر ومحراب کتابت ورسائل اور دوسری عوام الناس کے درمیان سطحی استعمال کیلئے، ان تمام جہود اور تالیفات وتصنیفات کا مقصد انیسویں صدی کے مستشرقین کی طرح عوامی تحریف شدہ عربی کی تدوین نہ تھا، بلکہ عوام وخواص کی غلطیوں پر تنبیہ کے ذریعے فصیح عربی کو تحریفات سے محفوظ رکھنا تھا، کیونکہ علمائے زمانہ عوامی عربی کو حقیقی فصیح عربی میں سراسر تحریف شمار کرتے تھے ۔

ان تمام کوششوں کے صلے میں فصیح عربی اپنی تمام ترفصاحت وبلاغت کےساتھ تخت قیادت پر براجمان تھی ،اور خاص وعام کسی کےبھی وہم وگمان میں نہ تھا،کہ عوامی عربی جو کہ تحریفات اور لحون کا مجموعہ ہے اپنی تمام تر کجی اور کمزوریوں کے باوجود فصیح عربی کی مزاحمت کریگی ۔

اور پھر چنگیز ی یلغار نے 656ھ میں عالم اسلام کا رخ کیا اور تمام متمدن دنیا کو ملیامیٹ کرتے ہوئے خلافت بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی،خلافت کے زوال کے ساتھ عربی زبان کا زمین سے ثریا کا سفر مکمل ہونے کے بعد ثریا سے زمین کا سفر شروع ہوا ،چنگیزی حملے کہ وجہ سے علمائے زمانہ منتشر ہوگئے ،اورعربی زبان کے ساتھ سابقہ اہتمام باقی نہ رہ سکا، جسکی وجہ سے عامۃ الناس کی غلطیوں اور تحریفات سے صرف نظر کیا گیا ،جو آگے چل کر ترقی کرتے ہوئے موجودہ تحریف شدہ عربی کی صورت میں ظاہر ہوئی ، اسی دوران انیسویں صدی شروع ہوئی برطانوی اور فرانسیسی استعمار کا زمانہ آیا ،شام لیبیا الجزائر پر فرانس،اور مصر پربرطانیہ کا قبضہ ہوگیا ،مشہور ہے کہ حکمران طبقے کا معاشرے پر گہرا اثر ہوتا ہے ،اور غالب قوموں کی ثقافت غلام قوموں میں سرایت کرجاتی ہے ۔

یہی کچھ عربی زبان کی لڑی میں پروے ہوئے موتیوں کی طرح ان اسلامی ممالک کے ساتھ ہوا، بلکہ استعمار نے اسے اسلحے کے طور پر استعمال کیا ،اور سب سے پہلے عربی کی تقسیم و تفریق کا تصور برطانوی استعمار کے زمانے میں مصر میں تعینات جرمن مستشرق ڈاکٹر ولھلم سبیتا نے پیش کیا ،اور عوامی تحریف شدہ عربی کو سرکاری محکموں کتابت وخطابت اور تعلیمی وغیر تعلیمی ہرسظح پر اپنانے کی تجویز پیش کی، اسی شخص نے 1880ء میں ایک کتاب "قواعد العربیۃ العامۃ فی مصر "تصنیف کی، جس میں انھوں نے عربی رسم الخط کو رومن رسم الخط سے تبدیل کرنے کی رائے کا اظہار کیا ،یہی کتاب ہے جس کے بعد عالم عرب میں فصیح عربی کے مشکل ہونے کا تصور پیداہوا، مذکورہ مستشرق اپنی کتاب جو انھوں نے عوامی عربی کی تدوین کے لئے تصنیف کی میں،لکھتے ہیں "میں نےکتاب کی تصنیف اور عوامی عربی کو جمع کرنے کےلئے انتہائی مشقتیں برداشت کی ،میں عرب ممالک میں ایک طویل عرصہ رہائش پذیر رہا، اور اس کتاب میں صرف اسی لفظ کو لکھا جو میں اپنے کانوں سے سنتا ،اور جو لفظ میں سنتا اسےاپنی آستین میں لکھ لیتا، مبادا کہ متکلم دیکھ لے اوراپنے کلام کی آزادی کو کھودے "

عالم کفر نے فصیح عربی کو ختم کرنے اور عوامی تحریف شدہ عربی کو عام معاشرے سے لیکر کتابت وخطابت اور تعلیمی اداروں میں رواج دینے کیلئے تمام تر کوششیں صرف کیں، یہاں تک کہ یورپی ممالک میں تحریف شدہ عربی کی تحقیق کیلئے مستقل ادارے قائم کئے گئےجن میں عوامی عربی تمام لہجات اور باریکیوں کےساتھ مستشرقین اورماہر ترین عرب اساتذہ کی نگرانی میں پڑھائی جاتی ۔

1-اٹلی میں مدرسہ تابولی للدروس الشرقیۃ قائم ہوا ،اور 1888ء میں اسکی تجدید ہوئی، جس میں تحریف شدہ عربی کو پڑھایا جاتا ہے ۔

2- 1754ء میں آسڑیا کے شہر وینا ((Vienna میں (مدرسۃ القناصل ) قائم ہوا، جس میں قونصلیٹس کو عوامی عربی کے تما م لہجات کے ساتھ مصر کے مایہ ناز عربی دان استاذ حسن المصری کی نگرانی میں پڑھایا جاتا ۔

3-1759ءمیں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں مشرقی زبانوں کی تعلیم کےلئے ایک یونیورسٹی قائم کی گئی، جس میں مشہور مستشرق سلفسردی ساسی پروفیسر تھے، اس یونیورسٹی میں عربی زبان کے متعلق ایک مستقل شعبہ کام کرتا ہے ۔

4-روس کے دارلحکومت ماسکو میں1814ء لازیرف یونیورسٹی قائم ہوئی، اور 1959ء میں ایک مستقل شعبہ عربی کے لئے اس یونیورسٹی میں قائم کیا گیا ۔

5-جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایک خصوصی یونیورسٹی مشرقی زبانوں کو سکھانے کے لئے بنائی گئی، جس میں عربی کو تمام لہجات کے ساتھ سکھایا جاتا تھا ،اور ڈاکٹر احمد الوالی مصری لہجہ کے اور شامی لہجہ کے ڈاکٹر ہرتمن استاد تھے۔

6-ہنگری میں 1891ء میں الکلیۃ الملکیۃ لعلوم الاقتصادالشرقیۃ قائم کیا گیا جس میں عربی کو خصوصی طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔

7ـبرطانیہ کے دارالحکومت لندن میں 19صدی کی ابتداء میں قائم کی جانے والی یونیورسٹی میں ایک مستقل شعبہ عربی کے لئے تھا۔

ان اداروں کے تیار شدہ دماغوں کو اسلامی ممالک میں بھیج کراستعمار اپنے مہروں کو اہم عہدوں پر بٹھاتا، جو تصنیف وتالیف کی صورت میں فصیح عربی کے خلاف محاذ جنگ بناتے، ڈاکٹر ولھلم سبیتا اور ڈاکٹر کارل فورس دونوں جرمن مستشرق دارالکتب المصریۃ کے منتظم اور آخر الذکر دارالمعارف کا رائٹر بھی تھا،ڈاکٹر j.seldon wilmore اورڈاکٹر باول یہ دونوں مستشرق مصر میں عوامی عدالت کے جج تھے ،اور Willaim willcoks برطانوی مستشرق جو کہ قاہرہ میں بطور انجینئر کام کرتا تھا ۔

اس وقت موجودہ عرب میڈیا میں عوامی تحریف شدہ عربی کی تائید کا محرک یوہان فک نامی جرمن مستشرق کی کتاب "دراسات فی اللغۃ والاسالیب العربیۃ "ہے ،جو اس نے 1950ء میں تصنیف کی ،اسی کتاب کی بنیاد پرعوامی عربی عرب ممالک کےمیڈیا، سیمینارز، کانفرنسز اور ٹاکشوزکا موضوع بنی، اور اسکے نفاذ کی ایک منظم انداز میں کوششیں شروع ہوئی، اس کتاب میں عرب معاشرےکویہ سوچ فراہم کی گئی ،کہ اب زمانے کی ترقی اور دوسری اقوام کے ساتھ ٹیکنالوجی کی دوڑمیں شامل ہونےکےلئے لازم ہے ،کہ معاشرے میں عوامی عربی کو تعلیمی اور غیرتعلیمی ہر سطح پر نافذکیا جائے ،کیونکہ عرب نوجوان بچپن سے جوانی تک عوامی عربی میں بول چال کرتا ہے پھر جب وہ اعلی تعلیمی میدان میں قدم رکھتا ہے ،تو اسے ایک نئی اجنبی زبان کاسامنا کرنا پڑتا ہے ،جسکے سیکھنے کیلئے اسے اپنی زندگی کے قیمتی سال ضائع کرنے ہوتے ہیں ،جو کہ اصل مقصود سے ہٹ کر ضیاع وقت ہونےکے ساتھ، تعلیمی زبان اس نوجوان کے لئے عام فھم نہیں رہتی، جس کی وجہ سےعالم عرب علوم وفنون کی مہارت میں دیگر اقوام سے پیچھے ہے ۔

کیاہی خوبصورت اور مٹھاس سے تر زہر آلود تیر اہل اسلام کے سینے میں اتارنے کی کوشش ہے ،اگر اس محرف شدہ عربی کو تمام عالم عرب پر نافذکردیا جائے، تو اہل اسلام کا رشتہ قرآن و حدیث اور دین اسلام کے حقیقی چشموں سے منقطع ہوکررسمی سا رہ جائے گا،گویا عربی زبان کے خلاف سازش کے ذریعے کفر اہل اسلام سے اسلام کی اصل روح کو سلب کرنا چاہتا ہے۔

عالم کفر کا یہ شیریں انداز صلیبی جنگوں میں مسلسل شکست کی خاک چاٹنے کے بعد کا نتیجہ ہے،فراعنہ کفر نےمیدان جنگ میں سینے پروار کرنے کے بجائے (الغزو الفکری ) ذہنی جنگ کی صورت میں پیٹھ پر وار کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اور اس جنگ میں اہل اسلام کے بھی کچھ بیمار،مستشرقین کی سوچ سے متاثر ہ ذہن ،جنکی اپنی ذہنی ساخت وپرداخت دارالکفر کی جامعات میں ہوئی نےبھی پورا ساتھ دیا ، جن میں بڑے نام استاد محمد عیاد الطنطاو ی کاہے ،جنھوں نے تحریف شدہ عربی کی تایید میں "احسن النخب فی معرفۃ لسان العرب "تصنیف کی ،اور اسی طرح شامی مصنف استاد میخائیل الصباغ جنھوں نے1812ءمیں عوامی عربی کی تایید میں "الرسالۃ التامۃ فی کلام العامۃ والمناہج فی اصول الکلام الدارج "تصنیف کی، اور طہ حسین کے نام سےتو ہر شخص جسکا عربی زبان سے رسمی سا تعلق ہو وہ بھی واقف ہے ۔

اس وقت اگر ان تمام کوششوں کے نتائج پر نظر ڈالی جائے، تو معلوم ہوگا کہ تقریبا٪50 فیصد کوششیں کامیاب نظر آتی ہیں ،منبر ومحراب کو چھوڑ کر تعلیمی ، سرکاری ونجی اداروں حتی کہ میڈیا تک میں عوامی تحریف شدہ عربی کا نفاذ ہوتا جا رہا ہے، اور اس مسموم تیر کا زہر عالم اسلام کے بدن میں لمحہ بہ لمحہ سرایت کرتے ہوئے اپنا اثر دکھا رہا ہے ،مگر صد افسوس ہے کہ نوجوانان امت اسلامیہ غفلت کی چادر اوڑ ھ کر اطمینان سےخواب غفلت میں محو ہیں۔فالی اللہ المشتکی۔

مجھے مت پڑھئے

برائے مہربانی مجھے مت پڑھئے، ہاں جی میں یہی کہہ رہا ہوں کہ مجھے مت پڑھئے، اصل میں یہ تحریر پڑھنے کے لئے نہیں ہے، یہ اس طرح کی تحریر ہے جیسے کے مائک ٹیسٹنگ کی جاتی ہے۔ تو بھائی آپ سے یہ کہا جارہا ہے کہ اس تحریر کو نہ پڑھئے ، یار میں کہہ رہا ہوں کہ مجھے مت پڑھئے اور آپ ہیں کہ پڑھتے ہی جارہے ہیں۔ بھائی آپ سے عاجزی کے ساتھ یہ درخواست ہے کہ برائے مہربانی اس تحریر کو مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے یہ بلاوجہ لکھی گئی ہے اور اس میں اسی کوئی ضروری بات نہیں جو آپ کو کہیں کام آجائے اور نہ ہی آپ کے علم میں کسی قسم کا اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے کہا جارہا ہے کہ بھائی اس تحریر کو نہ پڑھئے۔ بھائی کیا مسئلہ ہے ؟؟؟؟؟ یار آپ کو سیدھی بات سمجھ ہی نہیں آرہی؟؟؟ میں کہہ رہا ہوں کہ یہ تحریر کسی کام کی نہیں اور آپ ہیں کہ پڑھے ہی جارہے ہیں ؟؟؟؟ بھائی میں سہی کہہ رہاں ہو یہاں آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ اس سے بہتر ہے کہ آپ کسی علمی تحریر سے اپنے وقت کو کام میں لائیں۔۔۔ یہ تحریر آپ کا وقت ضائع کرہی ہے۔۔ اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کریں سنا ہے دماغ اگر روزانہ کچھ نیا نہ سیکھے تو منجمد ہوجاتا ہے ۔ خدارا اپنا نہ سہی کسی اور کا خیال کرلو نہ پڑھو بھائی۔جاؤ یہاں سے اور اپنا کام کرو۔ یار آپ کو عزت راس نہیں ہے کیا؟؟؟؟ کیوں سمجھ نہیں آرہی آپ کو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ بھائی یہ تحریر آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گی۔۔۔۔۔ نہ ابھی اور نہ کبھی۔۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے والی صورتحال ہے۔ کوئی مُکاشکا ماروں کیا۔؟؟؟؟؟؟ چلو عزت سے مخاطب کرتے ہیں۔ عالی جناب محترم حضرت قاری صاحب برائے مہربانی اس تحریر کو مت پڑھئے۔ آپ سے مؤدبانہ دست بستہ گزارش ہے کہ اس تحریر سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ خدا کے لئے اس تحریر کہ نہ پڑھو بھائی۔ یار آپ مان ہی نہیں رہے۔ مت پڑھو بھائی، ارے میاں آپ تو ہماری تین پانچ کو کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہے۔ او میاں کوئی فائدہ ہوا پڑھنے کا۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ نہیں نا۔ اب تو جاؤ یار اپنا کام کرو۔ ابھی بھی پڑھ رہے ہو۔ ارے میاں ہم تھک گئے سمجھاتے سمجھاتے پر آپ کی سمجھ شاید چھوٹی ہے۔

ہم ہی چلے جاتے ہیں لیکن جناب آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اس تحریر کے ساتھ وقت بتانے کا۔ 🙂

(کافی عرصہ پہلے پڑھی گئی آنکھ مچولی یا نونہال کی تحریر کی یاد میں کی گئی یاد)

نہار منہ پانی پینا

نہار منہ پانی پینا

انجیئر آصف مجید – لاہور

حدیث کی مشہور کتاب طبرانی شریف کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے نہار منہ پانی پیا، اس کی طاقت کم ہوجائے گی۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چار چیزیں بدن کو مضبوط بنادیتی ہیں۔
۔ گوشت کھانا
۔ خوشبو سونگھنا
۔ کثرت سے نہانا
۔ سوتی لباس پہننا
اور چار چیزیں بدن کو لاغر اور بیمار کردیتی ہیں۔ ان میں سے تین یہ ہیں
۔ نہار منہ پانی پینا
۔ ترش چیزیں کثرت سے کھانا
۔ فکر اور غم زیادہ کرنا
حکیم الامت حضرت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ بہشتی زیور میں لکھتے ہیں
۔ صبح کو فوراً پانی نہ پیو اور یک لخت ہوا میں نہ نکلو۔ اگر بہت ہی پیاس ہے تو عمدہ تدبیر یہ ہے کہ ناک پکڑ کر پانی پیو اور ایک ایک گھونٹ کرکے پیو اور پانی پی کر ذرا دیر ناک پکڑے رہو، (اس دوران) سانس ناک سے مت لو۔ اسی طرح گرمی میں چل کر فوراً پانی مت پیو۔ خاص کر جس کو لُو لگی ہو، وہ اگر فوراً بہت سا پانی پی لے تو اسی وقت مرجاتا ہے۔ اسی طرح نہار منہ نہ پینا چاہئے اور بیت الخلاء سے نکل کر فوراً پانی نہ پینا چاہئے۔


۔ جہاں تک ہوسکے، ایسے کنویں کا پانی پیو جس کی بھرائی زیادہ ہو (یعنی پانی زیادہ ہو) کھارا پانی اور گرم پانی مت پیو۔ بارش کا پانی سب سے اچھا ہے مگر جس کو کھانسی اور دمہ ہو ، وہ نہ پئے۔ کسی کسی پانی میں تیل ملا ہوا سا معلوم ہوتا ہے۔ وہ پانی بہت برا ہے۔ اگر خراب پانی کو عمدہ بنانا ہو تو اس کو اتنا پکاؤ کہ سیر کا تین پاؤ رہ جائے۔ پھر ٹھنڈا کرکے چھان کر پیو۔

۔ گھڑوں کو ہر وقت ڈھانپ کر رکھو بلکہ پینے کے برتن کے منہ پر باریک کپڑا بندھا رکھو تاکہ چھنا ہوا پانی پینے میں آئے۔


۔ برف گردوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ خاص کر عورتیں اس کی عادت نہ ڈالیں۔


۔ کھاتے پیتے وقت ہرگز نہ ہنسو۔ اس سے بعض اوقاقت موت کی نوبت آجاتی ہے۔ (بہشتی زیور نواں حصہ صفحہ 682)

جدید تحقیق کے مطابق نہار منہ پانی پینا جوڑوں کے درد کا باعث ہوتا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں گھٹنوں کے مریضوں کو نہار منہ پانی پینے سے منع کردیا جاتا ہے۔
آج سے تقریباً 35 سال پہلے نہار منہ پانی پینے کے فائدے اس قدر بیان کئے گئے تھے کہ لاتعداد لوگ نہار منہ پانی پینے کے عادی ہوگئے تھے۔ اور بہت سے لوگ تو اسے سنت بھی کہنے لگے ہیں۔ (انا اللہ وانا الیہ راجعون ) ج
میرا خیال ہے کہ مسلمانوں میں نہار منہ پانی پینے کی ترکیب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دی گئی ہے کہ تاکہ مسلمانوں کی طاقت کمزور ہوجائے۔ خاص طور پر پاک فوج کے نوجوانوں میں یہ ترغیب بہت زیادہ زوروشور سے دی گئی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاک فوج کے جوان صبح سویرے پانی کے گھڑوں کی طرف دوڑ دوڑ کےجاتے تھے اور دو دو تین تین گلاس چڑھا جاتے تھے۔
آپ تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ رمضان المبارک میں افطاری کے وقت کچھ نہ کھائیں اور صرف پانی پی لیں۔ آپ کی ٹانگیں تراویح میں کھڑا ہونے سے عاجز آجائیں گی۔
لاہور کے مشہور طبیب حکیم محمد اجمل شاہ صاحب جو میرے بھی حکیم ہیں اور اشیتاق احمد صاحب کے بھی، بہترین نباض  ہیں۔ نبض اور قارورہ دیکھ کر مرض سمجھ جاتے ہیں۔ مریض کو مرض بتانا نہیں پڑتا۔ غذاؤں سے علاج کرتے ہیں۔ رائیونڈ کے بزرگ، انڈیا اور کئی ممالک کے بزرگ، مولانا طارق جمیل صاحب وغیرہ ، ان سے مشورہ کرتے ہیں۔ ان کے استاد حکیم صدیق شاہین صاحب مرحوم (گولڈ میڈلسٹ) فرمایا کرتے تھے کہ نہار منہ پانی پینا براہِ راست دل پر اثر انداز ہوتا ہے اور معدے کو ٹھنڈا کرتا ہے۔
حکیم اجمل شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس بات پر اطباء کا اتفاق ہے کہ درج ذیل موقعوں پر پانی نہیں پینا چاہئے۔
۔   نیند سے بیدار ہوکر (یعنی نہار منہ) ج
۔  بیت الخلاء سے فراغت کے فوراً بعد (پیشاب پاخانہ یا غسل کے فوراً بعد) ج
۔  مشقت کے بعد (سفر، ورزش، بھاگ دوڑ محنت مزدوری وغیرہ کے بعد) ج
۔  رات کو سونے سے پہلے (یعنی پانی پیتے ہی نہ سونے کے لئے لیٹ جائیں) ج
پانی کم یا زیادہ پینے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ صحت مند آدمی کو اعتدال سے کام لینا چاہئے اور بیمار آدمی کو طبیب کے مشورے پر عمل کرنا چاہئے۔

شمارہ : بچوں کا اسلام 592 : 21 ذی الحجہ 1434 ھ بمطابق 27 اکتوبر 2013ء

ZayinWikipedia: Zayin (also spelled Zain or Zayn or simply Zay) is the seventh letter of many Semitic abjads, including Phoenician Aramaic, Hebrew ז Syriac and Perso-Arabic alphabet ز (see below).

دسمبر خاص لگتا ہے

وہ درجن بھر مہینوں سے
سدا ممتاز لگتا ہے
دسمبر کس لئے آخر
ہمیشہ خاص لگتا ہے
بہت سہمی ہوئی صبحیں
اداسی سے بھری ہوئی شامیں
دوپہریں روئی روئی سی
وہ راتیں کھوئی کھوئی سی
گرم دبیز شالوں کا
وہ کم روشن اجالوں کا
کبھی گزرے حوالوں کا
کبھی مشکل سوالوں کا
بچھڑ جانے کی مایوسی
ملن کی آس لگتا ہے
دسمبر کس لئے آخر
ہمیشہ خاص لگتا ہے

آنکھیں خریدو گے؟؟؟

میری آنکھیں خریدو گے۔۔۔؟
  بہت مجبور حالات میں
 مجھے نیلام کرنی ہیں
کوئی مجھ سے نقد لے لے
میں تھوڑے دام لے لوں گا
جو دے دے پہلی بولی تو
اسی کے نام کر دوں گا
مجھے بازار والے کہتے ہیں
کم عقل تاجر
سنو لوگو
نہیں ہوں میں کوئی
حرس کا مارا
نفع، نقصان کی شطرنج
نہیں میں کھیلنے آیا
بڑی محبوب ہیں مجھ کو
یہ میری نیم تر آنکھیں
مگر اب بیچتا ہوں کہ
میں نے ایک خواب دیکھا تھا
اسے اپنا بنانے کا
اسے دل میں بسانے کا
صرف اس کا ہو جانے کا
مجھے اس خواب کا
تاوان بھرنا ہے
انھیں نیلام کرنا ہے

سب بند کردو

یار حکومت والو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ فیس بک ،ٹویٹر شویٹراور ای میل شی میل  وغیرہ بھی بند کردو۔۔۔۔
۔
۔
۔
یار لوگوں سے ایک قصہ سنا تھا تبلیغی جماعت میں چلتے ایک پٹھان بھائی کا۔ پٹھان بھائی چائے بہت شوق سے پیتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک جماعت کو گاؤں والوں نے مسجد میں داخل نہ ہونے دیا اور ان کا سامان اٹھا کر پھنکنے لگے۔ جب چائے کی کیتلی کو اٹھا کر پھینکنے لگے تو پٹھان بھائی کو غصہ آیا اور یہ کہہ کر بھڑ گئے کہ امیر صاحب اب جہاد فرض ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ تو جی
جب یہ سوشلی سروسیں بند ہوں گی تو کیا پتہ جوان لوگ فارغ ہونے پر کچھ غصے وصے میں التحریر اسکوائر کی نقل شقل مار دیں
۔
۔
۔
۔
۔
پھر تو انقلاب آوے آوے 🙂 😛 😀

امن وامان

ہم بھی کتنے عجیب لوگ ہیں، جب تک اپنی ذات تک مسئلہ نہ پہنچے تبصروں تک ہی رہتے ہیں اور جب مئلہ خود کی ذات تک پہنچ جائے تو ناشکرے پن اور رونے دھونے پر شروع ہوجاتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے لیاری کا مسئلہ ٹی وی پر زوروشور سے جاری ہے، بتایا جارہا ہے کہ لوگ امن و امان کہ نہ ہونے سے بہت پریشان تھے اور اس وجہ سے انھوں نے علاقے سے نقل مکانی شروع کردی، ایسی جگہ پر جا بیٹھے جہاں انہیں بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔ اپنا گھربار اور سامان کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اپنی زندگی کو محفوظ کرنے کے لئے، اپنے پیاروں کی زندگی کو بچانے کے لئے۔ 

کچھ دن پہلے تک جو ٹارگٹ کلنگ کی لہر چل پڑی تھی جس میں سپاہ صحابہ کے کارکنوں کو شہید کی جارہا تھا، اس میں ہمارے محلے کے دو دوست بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، ان دنوں یہ سننے کو ملا کہ جناب ان نوجوانوں کی لسٹ بن چکی ہے جو مسجد سے تعلق رکھتےہیں اور  سپاہ صحابہ یا کسی مذہبی جماعت سے منسلک ہیں یا منسلک لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں، انھیں بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اور کچھ لوگوں کو نشانہ بنایا بھی گیا۔ ہم اس صورتحال سےپریشانی کا شکار ہوئے اور بعض اوقات کوشش کی کے خود بھی اور دوستوں کو بھی منع کیا جائے کہ چائے کے ہوٹل پر بیٹھنا بند کیا جائے۔ گھر سے بھی صرف ضرورت کے تحت نکلنا معمول بن گیا۔

اب یہ صورتحال درپیش ہے کہ برابر والے علاقے میں امن کمیٹی نے اینٹری دی ہے، جس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں میں عجب سی کیفیت ہے۔ اپنے آپ کو غیر محفوظ  محسوس کیا جارہا ہے، علاقے کی مختلف تنظیمیں اس پر شدید قسم کی دباؤ والی کیفیت محسوس کررہی ہیں۔ کچھ لوگوں کے بقول علاقے میں کلیش کی صورت بھی ہوسکتی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ایک مسجد کے سامنے کسی نوجوان کے ذرا سا گھورنے پر اسے گولی مار دی گئی۔ اس بات کے سامنے آنے پر ہم نے بھی اپنے بھائیوں اور دوستوں کو خبردار کیا کے جناب اب نہیں وہ وقت کہ آزادی سے گھوما جائے اپنے علاقے میں۔ 

جب سے یہ صورتحال ہے عجیب کیفیت ہے، کبھی سوچتے ہیں کہ اس علاقے سے ہجرت کی صورت اختیار کی جائے، ہمارا تو بچپن اس علاقے میں گزرا ہے بہت لوگوں سے جان پہچان ہے، دوسرے علاقے میں منتقلی کی سوچ پر عجیب کیفیت ہوتی ہے،اس محلے، گلی اور مسجد سے دل لگا ہوا ہے، دلی والوں کی طرح جسم سے جان نکل جائے پر دلی کی گلیوں میں ہی مریں گے والی کیفیت ہے، لیکن یہ سوچ بھی آتی ہے کہ دوسرے علاقے میں زیادہ سے زیادہ فطرے کی پرچیاں ہی آئیں گی نا؟؟؟۔۔۔ پرچی کے ساتھ گولی تو نہیں آئے گی یا کوئی ذرا سی بات پر گولی تو نہیں مارے گا نا۔؟؟؟؟؟؟

والد محترم کی ریٹائر مینٹ کا بھی خیال آتا ہے کہ چند سال ہی باقی ہیں،یہ علاقہ چونکہ قریب پڑتا ہے تو اس علاقے کو چھوڑنے پر مسائل بڑھنے کا اندیشہ ہے، سوچتے ہیں کہ والد محترم کی ریٹائرمینٹ پر کسی دوسرے شہر میں منتقلی کی جائے ۔ کراچی تو روشنیوں کی جگہ دہشت کا شہر بن کر رہ گیا ہے۔ سوچین منجمد ہوجاتی ہیں دماغ شل ہوجاتا ہے کہ کیا کرنا چاہئے۔ اپنے اوپر اس آفت کے پڑنے پر باقی لوگوں کی پریشانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ امن وامان کی کیفیت مستقل رہتی ہو۔ پہلے بھی 90-92 کے واقعات میں ہم اسی علاقے میں رہ رہے تھے اور زیادہ حالات خراب ہونے پر پی آئی اے ٹاؤن شپ منتقل ہوئے تھے۔ ان دنوں ہمیں یاد ہے کہ دودھ کی پاؤ والی تھیلیاں ایک دو دن میں اپنے صحن سے چھرے جمع کرکے بھر لیا کرتے تھے۔ اس وقت بہت زیادہ ہوائی فائرنگ ہوا کرتی تھی، علاقے میں اکثر کرفیو کی لگا رہتا تھا ہم دوست مل کر گلی میں کھیلا کرتے تھے اور فوجی بھائی ہمیں کچھ نہیں کہتے تھے اور ہم جب بھی پیٹرولنگ پر کوئی گاڑی گزرتی تو سب مل کر لائن بناتے اور فوجیوں کو سلوٹ کرتے تھے۔ دس بارہ سال کی عمر تھی اس وہ وقت یہ احساسات کہ یہ ہمارا محلہ ہے اور یہاں ہمارے دوست ہیں، اصل میں جذباتی طور پر اپنے علاقے کو اپنا محسوس نہیں کیا تھا اور منتقلی پر زیادہ دکھ بھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس وقت تو عجیب کیفیت ہے۔ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا کیا جائے۔ کبھی حکومت وقت کو کوسنے لگ جاتے ہیں کہ وہی ہے جو اس امن و امان کہ نہ ہونے کی ذمہ دار ہے۔ کبھی اپنے آپ کو کہ ہم سب ایک نہیں ہیں ورنہ مجال کسی کہ کوئی آکر کچھ کرجائے علاقے میں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ جس پر گزرتی ہے اسے ہی پتہ ہوتا ہے کہ تکلیف کیاہوتی ہے۔ لال مسجد کے واقعے کے بعد ہونے والے بم دھماکوں کے بارے میں یہ سنا کرتے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بھائی اور بہنیں اس حادثے میں مارے گئے۔ ہم یہ کہتے تھے کہ جناب یہ کوئی طریقہ نہیں ہے اپنے انتقام کا۔ اور یہ بھی سنتے ہیں کہ ڈرون میں مارے جانے والے لوگوں کے رشتے داربھی ان معاملات میں ملوث ہیں۔ آج ہمیں یہ سوچ بھی آتی ہے کہ کل کلاں کو ہمارے ساتھ بھی کوئی ایساخدا نہ کرے ہوگیا تھا ہم کیا کریں گے؟؟؟؟ انتقام کی سوچیں آنے لگتی ہیں۔ بہرحال اللہ پاک سب کو اپنے حفظ امان میں رکھے۔ آمین۔

اک خوفزدہ جیون لے کر
میں موت کے گھر میں رہتا ہوں
جس روز سفر میں رہتا ہوں
میں سانس بھی گن کر لیتا ہوں
جہاں ذات نسل کے جھگڑوں پہ
ہتھیار اٹھائے جاتے ہیں
ہر روز کئی معصوموں کا
جہاں خون بہایا جاتا ہے
جہاں موت بھی ماتم کرتی ہے
میں اسی نگر میں رہتا ہوں
اک خوفزدہ جیون لے کر
میں موت کے گھر میں رہتا ہوں
ہر روز کسی ماں کا بیٹا
بے موت ہی مارا جاتا ہے
ہر روز کسی کی میت کو
دھرتی میں اتارا جاتا ہے
آج کون معصوم مارا جائے گا
میں اسی فکر میں رہتا ہوں
جس شہر کا نام کراچی ہے
میں اسی شہر میں رہتا ہوں