میری داستان لہو لہو

میری داستان لہو لہو

شیر محمد ۔کراچی

"اللہ میرے وطن کو سلامت رکھے۔” والدہ محترمہ کی یہ دعا آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ اس وطن کی تعمیر میں ہمارے بزرگوں کا خون شامل ہے۔ ہمارا یہ پیارا وطن کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے۔ پھر اکثر وہ یہ واقعہ بیان کرتیں جو انھوں نے حضرت مولانا مظہر صاحب (مہتمم اشرف المدارس) کی زبانی سنا تھا۔ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے وہ رونے لگتیں۔ حضرت ہی کے طریقے پر سنئے۔
زمانہ طالب علمی میں جامعہ اشرفیہ لاہور کی مسجد میں ایک بوڑھے شخص کو دیکھا کرتا تھا۔ میں اکثر ان کے پاس چلا جاتا۔ وہ مجھ سے محبت سے ملتے ۔ میں ان سے ان کی خاموشی کی وجہ پوچھتا تو وہ ہنس کر ٹال دیتے۔
ایک دن اُن کی عجیب کیفیت تھی۔ مجھے پاس بلایا۔ کہنے لگےکہ”تم اکثر مجھ سے میری خاموشی کی وجہ پوچھتے ہو۔ آج میں اسکی وجہ بتادیتا ہوں۔” یہ کہہ کر رونے گے۔ پھر گویا ہوئے تو ان کی آواز میں درد ہی درد تھا۔”پاکستان کی آزادی پر ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ میری آٹھ بچیاں تھیں۔ میری بیوی اور بچیوں نے فیصلہ کیا کہ سب کچھ قربان کردیں گے، لیکن اس دیس تک ضرور پہنچیں گے جو کلمے کی بنیاد پر بنا ہے۔ آخر وہ دن آپہنچا جس دن میں اپنے خاندان کو لے کر بذریعہ ٹرین پاکستان کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ہندوؤں نے ہماری ٹرین پر حملہ کردیا۔” یہ کہہ کر وہ خلاؤں میں گھورنے لگے۔ ایسا لگا جیسے وہ منظر ان کے سامنے ہو۔ پھر روتے ہوئے بولے
"میرے سامنے ایک ایک کرکے میری بیوی اور آٹھ بیٹیوں کو شہید کردیا گیا۔ میری کل کائنات میری آنکھوں کے سامنے لٹ گئی۔ مجھے ان سے بہت محبت تھی اور وہ بھی مجھ سے بے پناہ محبت کرتی تھیں، لیکن میں کچھ نہ کرسکا۔ بے بسی سے دیکھتا رہ گیا۔” ان کا سانس گلے میں اٹکنے لگا۔
"مولانا! میری سب سے چھوٹی بیٹی نے زخموں سے چُور چُور ہونے کے باوجود مجھ سے آخری خواہش کا اظہار کیا۔ اس کی آخری خواہش کیا تھی؟ اسی کی طرح معصوم تھی۔ کہنے لگی:
"ابا جان! ہماری لاشیں اس پاک سرزمین میں دفن کرنا۔ ہم زندہ آنکھوں سے اُسے نہ دیکھ سکے، لیکن ہمارا جسد خاکی اس سرزمین میں دفن ہوجائے جس کی محبت میں ہم نے جان کی بازی بھی لگادی۔”
وہ بزرگ زارو قطار رونے لگے۔ مولانا جانتے ہو! میری بچی کی زبان پر آخری الفاظ کیا تھے؟

اس کے آخری الفاظ تھے”
"اللہ میرے وطن کو سلامت رکھے۔”

یہ داستان ختم ہوگئی، لیکن ایسی سیکٹروں داستانیں اس پاک سرزمین کی بنیادوں میں دفن ہیں۔

(بچوں کا اسلام: شمارہ 476)

2 thoughts on “میری داستان لہو لہو

  1. ہمممممممممم
    اب تو آدھا ہوئے بھی چالیس سال ہو گئے۔۔۔۔۔باقی کیلئے ۱۵ اگست کو جشن آزادی منانے والے بھی موجود ہیں اور پانچ کروڑ کو واپس انڈیا کو قبول کرنے کیلئے راضی کرنے والے بھی اور گریٹر بلوچستان کا نعرہ بھی موجود۔۔۔
    اس آدھے کی روزانہ چمڑی اتارنے والے بے رحم بھی موجود۔۔
    آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

تبصرہ کریں