چھوٹی سی بات

زندگی میں بہت سی باتیں ایسی جو آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں۔ لیکن بعض اوقات اگر کوئی شخص ایک چھوٹی سی بات ہمیں سمجھائے تو وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور ہم اسے سمجھنے کے لئے ایک ایسے سفر پر نکل پڑتے ہیں جس کا انجام ذلت، رسوائی ، بھوک ، قید اور موت کے تحفے کی شکل میں نکلتا ہے۔
کسی ملک میں ایک پہلوان اپنی شہ زوری کے باوجود مفلسی کا شکار تھا ۔ اپنے وطن میں روزی حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی تو باپ سے پردیس جانے کی اجازت مانگی۔ باپ نے سمجھایا کہ صرف طاقتور ہونا کامیابی کی علامت نہیں۔ پانچ افراد ایسے ہیں جنہیں سفر راس آتا ہے۔ امیر کبیر سوداگر، خوش آواز مغنی، ، عالم، خوب رُو اور پانچواں وہ شخص جو کوئی ہنر جانتا ہو۔ پہلوان نے باپ کی نصیحت کو بے دلی سے سنا اور سفر پر نکل پڑا۔ ایک کشتی میں سوار ہوگیا ۔ راستے میں ایک ویران جزیرہ دیکھا تو سستانے کے لئے اتر گیا۔ تھکاوٹ کا غلبہ اتنا تھا کہ جب سوکر اٹھا تو اگلا سورج غروب ہونے کو تھا۔ ادھر اُدھر دیکھا لیکن کشتی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ دودن اور دو راتیں اسی جزیرے پر بھوکا پیاسا بیٹھا رہا۔ پھر کچھ نقاہت اور نیند کے غلبے سے دریا میں گر پڑا ۔ لیکن اس کی زندگی باقی تھی ، دریا کی لہروں نے اچھال کر کنارے پر پھینک دیا یوں وہ مچھلیوں کی خوراک بننے سے بچ گیا۔ پہلوان کو یہ معلوم نہ تھا کہ اپنے وطن سے کتنی دور اور کس علاقے میں ہے۔ لیکن زندگی باقی ہو تو غیب سے سامان پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک شہزادہ شکار کھیلتا ہوا اس طرف آنکلا ۔ پہلوان کی کہانی سنی تو آبدیدہ ہوا۔ خاص آدمی کی ذمہ داری لگائی کہ اسے اس کے وطن پہنچادے اور یوں پہلوان چہرہ لٹکائے وطن واپس پہنچ گیا۔۔

جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا

جوبھی تھا کیا تھوڑا تھا
کہ اپنے دیس کو روتے بھی ہو
چین سے پڑھ کر کر سوتے بھی ہو
اپنے دیس کا غم کیسا ہے
ہنستے بھی ہو روتے بھی ہو
کس نے کہا تھا آؤ یہاں
آکر تم بس جاؤ یہاں
جب دیس تمھارا اپنا تھا
وہ شہر تمھارا اپنا تھا
وہ گلی تمھاری اپنی تھی
وہ مکاں پرانا اپنا تھا
اس دیس کو پھر کیوں چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا

جب بھی دیسی مل کر بیٹھیں
قصے پھر چھڑ جاتے ہیں
ان ٹوٹی سڑکوں کے قصے
ان گندی گلیوں کے قصے
ان گلیوں میں پھرنے والے
ان سارے بچوں کے قصے
اورنگی یا کورنگی کے
پانی کے نلکوں کے قصے
ان نلکوں پر ہونے والے
ان سارے جھگڑوں کے قصے
اور نکڑ والے دروازے پر
ٹاٹ کے اس پردے کے قصے
اسے پردے کے پیچھے بیٹھی
اس البیلی نار کے قصے
جس کی ایک نظر کو ترسے
ان سارے لڑکوں کے قصے
جھوٹے قصے سچے قصے
پیار بھرے اس دیس کے قصے
پیار بھرے اس دیس کو تم نے
آخر کیوں کر چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا

تم پھولے نہیں سمائے تھے
جب ایمبیسی سے آئے تھے
ہر ایک کو ویزا دکھاتے تھے
اور ساتھ یہ کہتے جاتے تھے
چند ہی دنوں کی بات ہے یارو
جب میں واپس آؤں گا
ساتھ میں اپنے ڈھیر سے ڈالر
اور پتہ بھی لاؤں گا
تم نے کب یہ سوچا ہوگا
کیا کیا کچھ پردیس میں ہوگا
اپنے دیس کے ہوتے سوتے
بے وطنی کو روتے روتے
دیس کو تم پردیس کہو گے
اور پردیس کو دیس کہو گے
دیس کو تم الزام بھی دوگے
الٹے سیدھے نام بھی دوگے
ارے دیس کو تم الزام نہ دو
الٹے سیدھے نام نہ دو
دیس نے تم کو چھوڑا تھا
یا تم نے دیس کو چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جوبھی تھا کیا تھوڑا تھا